مدارس، جہاد اور تشدد

راؤ منظر حیات  جمعـء 7 مارچ 2014
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

مسلمانوں کا صدیوں پُرانا اپنا نظام تعلیم تھا۔ یہ نظام ان کی تہذیب، ثقافت، مذہب اور مزاج کے کافی قریب تھا اور اپنی روایات میں بھی بہت شاندار اور پُروقار تھا۔ آپ ہندوستان میں قدیم تعلیمی سسٹم کو تھوڑی دیر کے لیے رہنے دیجیئے۔ آپ ہمارا ثقافتی اور فنِ تعمیر کا ورثہ دیکھیے۔ یہ اس حد تک خوبصورت اور پُرشکوہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین ان کو دیکھ کر ششدر اور حیران رہ گئے تھے۔ آپ ولیم ڈیر مپل کی کتابوں کا مطالعہ کیجیے۔1857ء سے بہت پہلے انگریزوں کی کافی تعداد مسلمانوں کے لباس اور رہن سہن کو اپنانا فخر سمجھتی تھی۔ وہ دہلی کا لال قلعہ، لاہور کا قلعہ، مساجد اور محلات دیکھ کر شدید احساس کمتری کا شکار ہو گئے تھے۔ بہادر شاہ ظفر کسی لحاظ سے ایک فعال شہنشاہ نہیں تھا مگر اس جیسے کمزور بادشاہ کے سامنے بھی برطانوی افسر بیٹھنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔

مگر ایک شعبہ میں مسلمان بہت پیچھے رہ گئے اور وہ تھا سائنس اور ٹیکنالوجی کا میدان۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں مگر ایک بہت بڑی وجہ ہمارا رہن سہن اور نظام تدریس تھا۔ ہم لوگوں میں جستجو اور سوال کرنے کی اہلیت تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ اب بھی یہی حالات ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ نوبل پرائز کی فہرست میں مسلمان شرمناک حد تک کم ہیں؟ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہمارا اپنا نظام تعلیم کیا تھا۔ اس کی کوتاہیاں کیا تھیں اس کے مسائل کیا تھے؟ اور کیا وجہ ہوئی کہ ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے۔ اور اب مغربی دنیا ہمارے قدیم سسٹم کو مکمل تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

ہم اپنے طرز تعلیم میں مدارس کی اکائی سے منسلک نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں میں پہلا مدرسہ سلجوک حاکم نظام الدین طوسی نے بغداد میں شروع کیا۔ ہمارے خطے میں پہلا مدرسہ سلطان محمد غوری نے اجمیر میں کھولا اور اس طرح کے لاتعداد مدارس پورے ہندوستان میں شروع ہو گئے۔ ذریعہ تعلیم فارسی اور عربی تھی۔ ان مدارس میں مجموعی طور پر دین اور دنیاوی علوم دونوں کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مدرسہ سے فارغ التحصیل طالب علم کو فاضل کہا جاتا تھا۔ جس کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ وہ اب ایک عالم بن چکا ہے۔۔ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں ملا نظام الدین سہالوی نے ہمارے مدارس کے نصاب میں بنیادی تبدیلیاں کیں۔ درس نظامی صرف اور صرف ہمارے خطے میں تھا اور ہے۔ یہ نصاب اسی عالم کے نام پر آج تک درس نظامی کہلاتا ہے۔ آج بھی یہ نصاب بہت معمولی تبدیلی کے ساتھ ہمارے مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔

1947ء میں پاکستان میں189 مدارس تھے۔ آج یہ تعداد چالیس ہزار سے اُوپر ہے۔ ان کی صحیح تعداد کیا ہے، حقیقت میں یہ کسی کے علم میں نہیں ہے۔ ان مدارس میں زیادہ تر سُنی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ صرف6-10 فیصد مدارس اہل تشیع سے منسلک ہیں۔ ہمارے مدارس کے فقہ کے اعتبار سے پانچ بورڈ ہیں۔ ہر فقہ کے بورڈ الگ الگ ہیں اور پھر ان کے درمیان رابطے کے لیے ایک الگ ادارہ ہے۔ میں تجسس اور طالبعلم کی حیثیت سے لاہور میں دو مدارس میں گیا۔ ان میں ایک مدرسہ جامعہ اشرفیہ سنی فقہ اور جامعہ منتظر اہل تشیع کا تھا۔ میں ان کے منتظمین کے پاس گھنٹوں بیٹھا رہا۔ اس کے علاوہ کراچی میں ایک عالم دین سے فکری نشست میں رہا۔ یہ عالم ایک کمپیوٹر انجینئر ہیں اور یہ بھی سُنّی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دونوں مدارس میں طالبعلم غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان مدارس کا براہ راست واسطہ اور تعلق اس طبقے سے ہے جو غریب بھی ہے اور اپنے بچوں کو وسائل نہ ہونے کی بدولت کوئی تعلیم نہیں دلوا سکتا۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں غریب کو معیاری تعلیم دینے کے حکومتی اسباب نہ ہونے کے برابر ہیں۔

مجموعی طور پر یہ بچے ان درسگاہوں میں صرف ایک وجہ سے زیر تعلیم ہیں اور وہ ہے مستقل غربت۔ یہ قدر مشترک ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو مالی استطاعت رکھتے ہوں اور ان کے بچے مدارس میں زیر تعلیم ہوں۔ ان دونوں مدارس کا نصاب عربی زبان، قرآن، حدیث اور دین کی جزئیات سے تعلق رکھتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان مدارس کے اساتذہ کو یہ احساس ہے کہ ان کا نصاب بہت پُرانا ہے۔ لیکن شائد اس نصاب کو تبدیل کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ان مدارس میں میٹرک پاس بچے کو داخل کیا جاتا ہے۔ اگر وہ میٹرک نہ ہو تو اس کا داخلہ بہت مشکل ہے۔ یہ ایک صائب اور احسن بات ہے۔ مگر پہلے یہ پابندی نہیں تھی۔ میں یہاں ایک نکتہ کو کھل کر بیان کرنا چاہتا ہوں کہ نصاب کی حتمی منظوری وفاق المدارس کا کام ہے اور بنیادی نصاب تقریباً ایک جیسا ہے۔ ان دونوں مدارس میں کوئی سیاسی تنظیم نہیں تھی۔ کمپیوٹر کی تعلیم کی مکمل آگہی ہر جگہ موجود تھی۔ میرے لیے یہ بات حیرت کا باعث بنی جب ایک ادارہ کے منتظم نے کہا کہ وہ لیپ ٹاپ اور آئی پوڈ کے استعمال کے بغیر تصور بھی نہیں کر  سکتے کہ اپنے   ادارے کو دین کے مطابق چلا سکیں۔

ان اداروں کے مالی معاملات بظاہر بہت سادہ نظر آتے ہیں۔ شیعہ علماء نے تفصیل سے بتایا کہ ان کے مسلک کے آدمی خمس ادا کرتے ہیں۔ یہ خمس ان کے خالص منافع پر لاگو ہوتا ہے۔ تمام خمس پاکستان سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اسکو خرچ کرنے کا اختیار کسی بھی شیعہ مدرسے کے پاس نہیں ہے۔ نجف اور ایران میں قیام پذیر آیت اللہ ہر مدرسے کو ایک خاص رقم خرچ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ یہ اجازت تحریری ہوتی ہے۔ باقاعدہ ایک شخص کا نام لکھ کر بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک مدرسے پر کتنی رقم خرچ کر سکتا ہے۔ خمس کو اکٹھا اور خرچ کرنا دونوں ایک مرکزی نظام کے تحت ہیں۔ سُنّی مدرسہ جو کہ حجم اور سہولت میں بہت بڑا تھا، اُس کے منتظم نے بالکل سادگی سے بتایا کہ صدقات اور خیرات ان کے موثر ترین ذریعہ آمدن ہیں۔ لیکن یہ تمام پیسہ کسی مرکزی جگہ پر اکٹھا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے خرچ کرنے کی اجازت کسی مرکزی دینی رہنما سے لی جاتی ہے۔ دونوں مدارس کی آمدن کا پرائیویٹ کمپنیاں سالانہ آڈٹ کرتی ہیں اور یہ آڈٹ رپورٹ تمام لوگوں کے مطالعہ کے لیے موجود ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں مدارس قطعاً مخیر حضرات کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ یہ کسی کو چندہ کی اپیل نہیں کرتے۔ لوگ خود ان کو مانگے بغیر پیسے دیتے ہیں۔ ان مدارس میں چھ سے آٹھ سال کی تعلیم ہے۔ اور اس عرصے کے بعد جو ڈگری دی جاتی ہے وہ M.A کے برابر ہے۔H.E.C ان اداروں کی ڈگری کو تسلیم کرتا ہے۔ لڑکیوں کے مدارس بھی موجود ہیں اور وہ لڑکوں سے بالکل علیحدہ ہیں۔

جہاد کے متعلق بحث میرے لیے بالکل حیران کُن تھی۔ سُنّی مدرسے میں تمام علماء کی بالکل ایک رائے تھی۔ ان کے مطابق جہاد فی سبیل اللہ صرف اور صرف حکومت کی اجازت سے ہو سکتا ہے۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ حکومت وقت باقاعدہ جہاد کا حکم نہ دے تو وہ جہاد نہیں بلکہ فساد ہے۔ وہ طالبان کو فساد فی الارض کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ شیعہ علماء نے بھی تقریباً یہی بات کی۔ ان کے مطابق اگر ملک کی حکومت جہاد کا حکم دے تو تمام شہریوں پر واجب ہے کہ وہ اس حکم کی تعمیل کریں۔ ان کے مطابق بھی جہاد صرف امام کی اجازت سے ہو سکتا ہے۔ انفرادی حیثیت سے کوئی شخص بھی جہاد کا حکم نہیں دے سکتا۔ دونوں مدارس کے منتظمین اس معاملے میں کسی ابہام کا شکار نظر نہیں آئے۔ فرقہ پرستی کے متعلق بھی ان کی سوچ میں اعتدال نظر آیا۔ کسی نے بھی مخالف فرقے کے متعلق کوئی منفی بات نہیں کی۔

کراچی میں جس سافٹ ویئر انجینئر عالم سے ملاقات ہوئی۔ اس کی عمر کوئی چالیس سال ہو گی۔ اُس عالم کے بیان میں انتہائی سختی تھی اور مجھے قدرے مایوسی بھی ہوئی کہ اتنا پڑھا لکھا شخص اپنے خیالات میں اس قدر منجمد کیوں ہے۔ میرے بیٹھے بیٹھے اُس نے کئی علماء کو ہی دائرہ اسلام سے خارج کر دیا۔ اُس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ وہ ان علماء کا بیان ٹی۔ وی تک پر نہیں سنتا کیونکہ اُس سے ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ دلیل کی طاقت اور قوت سے مجھے وہ نوجوان عالم کوسوں دور نظر آیا۔ ہر معاملہ میں اس کا نقطہ نظر تھا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اور صحیح بات کر رہا ہے۔ اگر میں مدارس کے دینی علماء سے اس پڑھے لکھے عالم کا مقابلہ کروں تو مدارس کے علماء مجھے زیادہ آزاد خیال نظر آئے۔ ان تمام مدارس کے منتظمین نے تفصیل سے بتایا کہ صرف تین سے چار فیصد مدارس جہادی اور شدت پسند پیدا کر رہے ہیں۔ ان میں اکثریت کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے لیکن یہ اور صوبوں میں بھی موجود ہیں۔ شدت پسندی، فرقہ واریت اور تشدد میں مذہبی عنصر موجود ہے۔ کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔

ہمارے بارہ سے پندرہ لاکھ بچے پاکستانی مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔ میں دوبارہ عرض کروں گا ان تمام بچوں میں صرف ایک قدر مشترک ہے کہ یہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کوئی ایسا سوشل سیکیورٹی کا نظام نہیں جو ان بچوں کو معیاری تعلیم کے نزدیک تک لے جائے۔ ان بچوں کو سات آٹھ سال کی تعلیم کے بعد بھی کوئی مناسب روز گار مہیا کرنے کا انتظام نہیں ہے۔ ہمارے اسکول اور کالجوں کے بچے مدارس کے طا لبعلموں سے ذہنی طور پر کوسوں دور ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو تین چار فیصد مدارس دہشت گردی میں ملوث ہیں ہم ان کے علماء کو سر پر بٹھاتے ہیں۔ ہم ان کے سامنے معذرت خواہانہ رویہ رکھتے ہیں۔ ہم ان کو گاڑی تک چھوڑنے جاتے ہیں۔ ہم اُن کے خوف کی وجہ سے اُن کی عزت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کسی وقت ہمارے امن پسند علماء بھی دہشت گردی کی سڑک کا رخ کر گئے تو پھر کیا ہو گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔